Yugo
India /
Jammu and Kashmir /
Kargil /
World
/ India
/ Jammu and Kashmir
/ Kargil
World / Pakistan / Northern Areas / Northern Areas
village
Add category
A small village in Ghanche District of Baltistan in Jammu and Kashmir region.
It is located 75 km away from Baltistan's capital Skardu.
________________________________________
مختصر تاریخ یوگو
بقلم: محمد اسماعیل فضلی یوگوی
"یوگو" بلتستان کے مرکز سکردو سے 75 کلو میٹر شمال مشرق کی طرف واقع ہے، ضلع سکردو سے ہمایوں پل عبور کر کے ضلع گانگچھے کا آغاز ہوتا ہے، یہاں سے خپلو سیاچن روڈ پر چلتے جائیں تو کم و بیش 25کلو میٹر کے فاصلے پر "یوگو" پہنچ جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ: خطہ بلتستان قدیم زمانے سے چھوٹے چھوٹے مملکتوں پر منقسم تھیں، ان سلطنتوں کے حکمرانوں کو راجہ یا " رگیالفو" بادشاہ کہا جاتا تھا، ایسی ہی ایک طاقتور سلطنت خپلو تھا۔ جنکے حکمرانوں کو "یبگو" کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا، سلطنت خپلو کا پہلا گاؤں "یوگو" تھا۔ چونکہ یہ علاقے کا پہلا گاوں تھا، گاوں کو بلتی زبان میں "یل" کہتے ہیں اور پہلا کے لئے لفظ "گو" استعمال ہوتا ہے، اس مناسب سے اس گاوں کا نام یل گو پڑ گیا، بعد میں اس کی اصل تلفظ بگاڑ کر یوگو بن گیا۔
یوگو میں آغاز آبادی کب ہوئی؟ اس بارے میں وثوق سے کوئی بات کہنا ممکن نہیں، کیونکہ اس بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ نالہ یوگو میں گلیشیئر کے سرکتے پہاڑی تودے گرنے سے اور دریائے شیوق میں آنے والے خوفناک سیلابوں کے نتیجے میں یہ ہموار اور شاداب گاوں پیوند خاک ہوتے رہے۔ سینہ بسینہ چلے آنے والے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی آبادی کا آغاز دو دوستوں گھچے اور بروقپہ سے ہوئی۔
قدیم مذاہب: پورے بلتستان کی طرح یوگو میں بھی قدیم زرتشی مذہب کا رواج وسط ایشیاء کی جانب سے ہوا۔ یہ مذہب قبل از مسیح عرب سر زمینوں میں رائج تھا۔ اسکے باقیات در آثار کسی نہ کسی طریقے سے آج بھی موجود ہیں۔ مثلاً جشن نوروز، جشن مے فنگ، ستروب لا وغیرہ کی تہوار بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ قدیم مذاہب میں سے "بون مت" "بدھ مت" "لاما ازم" سر فہرست ہے۔
اشاعت اسلام: نور اسلام کی ضیاء پاشیوں سے قبل یہاں کی حالت عرب دور جہالت سے کم نہ تھی، توھم پرستی کا زور تھا، رگیالفو " بادشاہ" کو دیوتاؤں کا اوتار سمجھتے تھے، اور ظلم پر ظلم سہ لیتے ، لیکن دیوتاوں کے خوف سے زبان پر تالا لگائے رکھتے، حتی کہ راجہ کا نمائندہ نمبردار اور راجہ کے کارندے ﴿جنہیں "بوتادا" کے نام سے پکارا جاتا تھا ﴾ کے سامنے سرنگوں رہتے تھے،
آٹھویں صدی ھجری یعنی چودھویں صدی عیسوی تک یہ علاقہ نور اسلام سے محروم رہا۔ رگیالفو بوخا کے دور حکومت میں اسلام کی تبلیغ ان پہاڑوں میں پہنچ گئے۔
مبلغین اسلام کے بارے میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں، راقم کی تحقیقات کے مطابق جس مبلغ نے یہاں قدم رکھا میر شمس الدین عراقی تھا یہ تحقیق بھی سامنے آ تا ہے کہ انکا مسلک شافعی تھا، لیکن ہر فرقے کے ماننے والے ان مبلغین کا تعلق اپنے فرقے سے ظاہر کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، روایت ہے کہ یوگو کا ایک شخص جسکا غیر اسلامی نام واضح نہیں ہو سکا، خپلو راجہ کی تاج پوشی کی تقریب میں موجود تھا،
یہاں لامائیں اپنے کرتب دکھا رہے تھے، کہا جاتا ہے امیر کبیر سید علی ہمدانی وہاں تشریف لایا، مبلغ اسلام کا لاماؤوں کے ساتھ مناظرہ ہوا، برکات قرآن ، اور اسم اعظم لاما اپنا شعبدہ دکھانے میں عاجز رہے اور عوام کے جم غفیر سے بھاگ کھڑا ہوا۔
یہ موقع تھا کہ وارث انبیاء کو دعوت حق دینے کا چنانچہ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی مطابقت کو ایسے واضح اور مدلل انداز میں پیش کر دیا کہ دربار میں موجود لوگوں پر توھم پرستی کی دنیا بے حقیقت نظر آۓ ، چنانچہ یوگو کا وہ شخص بھی وہیں پر دائرہ اسلام میں داخل ہوکر اپنا نام فضل علی رکھ دیا۔ انہی کی تبلیغ سے سارا اہل یوگو حلقہ بگوش اسلام ہوۓ ، اس وقت کونسا مسلک اختیار کیا تھا اس کا کوئی خاص ثبوت نہ مل سکا، البتہ ایک وقت تھا کہ سالم آبادی نوربخشی مسلک کے پیرو رہے۔
انیسویں صدی میں ایک شخص غلام محمد پھڑا عبدوپا تلاش معاش کے سلسلے میں حسب روایات براستہ کشمیر عازم ہندوستان ہوۓ، انہوں نے شملہ میں ایک ٹھیکڈار عبدالوہاب کے ہاں ملازمت اختیار کی، سیٹھ عبدالوہاب کی تبلیغ سے اس نے اھلحدیث ﴿سلفی﴾ مسلک اختیار کیا، یہ بلتستان کا پہلا شخص تھا جو اھلحدیث ہوا، اسکے بعد اسی غلام محمد کی تبلیغ اور سیٹھ عبدالوہاب کی کاوشوں کا ثمرہ تھا کہ مولانا عبدالرحیم غواڑی نے اس مسلک کو اختیار کیا، بیسویں صدی عیسوی میں ایک بطل جلیل مفتی عبدالقادر ؒ دہلی سے فارغ التحصیل ہو کر آۓ ، یہ وہ دور تھا کہ نوبرا اور لداخ سے نکلنے والے دریاۓ شیوق میں ہلاکت خیز سیلاب آیا ، جس سے یوگو کی سرسبز و شاداب اور سحر نگیں گاؤں میں غرق آب ہوکر چٹیل میدان میں تبدیل ہو گئے، زرعی زمینوں کی تباہی، عزیزوں کی موت، رہائشی مکانات کی تباہی نے قیامت صغری بپا کر دیا ، زندگی کے رمق کو باقی رکھنے، بچوں کو پالنے اور زمینوں کو دوبارہ آباد کاری کیلۓ بھیگ مانگنے پر مجبور ہوئے، حتی کہ دور جدید کی اقتصادی انقلاب تک لوگ مختلف علاقوں سے بھیگ مانگ کر بچوں کو پالتے رہے۔
ایسے میں توھم پرست دنیا ایک عظیم معجزہ کے منتظر رہے ، مفتی عبدالقادر ؒ کے ذریعے دہلی کے سیٹھ عبدالوہاب ؒ نے دوبارہ آباد کاری کے لئے دل کھول کر مدد کی،لوگوں نے انہیں تائید غیبی جانا اور انہی کے مسلک "مسلک اھلحدیث" اختیار کر گئے، آج یہاں کی پوری آبادی الحمدللہ اھلحدیث ہیں، کہاوتی روایت ہے کہ کسمپرسی اور مفلوک الحالی کے اس دور میں آدھی رات کے قریب گاوں کے قریب سے غیر مرئی مخلوقات کی دلفگار آوازیں سنائی دینے لگے، نادیدہ مخلوقات سورة الرحمن کی تلاوت بآواز بلند کرتے ہوۓ اس پہاڑی پر چڑھ رہے تھے جس کے اوپر ایک وسیع و عریض چتیل میدان تھا ، راویوں کا کہنا ہے بعد میں اسی میدان تک سیٹھ حمید اللہ کے مالی تعاون سے پرپیچ اور پر خطر پہاڑوں کو کاٹ کر نہر نکالی گئی آج یوگو کے بیشتر معیشت کا دارومدار اسی واٹر چینل پر ہے، چند سال ہوے شیخ عبدالوہاب حنیف ؒ کی تعاون سے اس کی کافی حد تک توسیع کی گئی ہے ۔
معاشرتی ارتقاء: یوگو میں ارتقاء آبادی کے بارے میں کوئی مستند تاریخ دستیاب نہ ہو سکا، البتہ جرمن محقق "مس لیزا پولز" کے ساتھ راقم کی ملاقات خپلو قلعے میں ہوئی، وہ کہتی ہے کہ قدیم دور کی نشانیاں جو
اطراف و اکناف کے چٹانوں پر کندہ ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں انسانی آبادی کا آغاز ان سے ہوئی جو وسط ایشیاء سے خانہ بدوش قافلے اپنے مویشوں کو چراتے ہوۓ یہاں وارد ہوۓ اور یہاں کی زرخیزی سے متاثر ہو کر سکونت اختیار کی۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں آج یوگو کا عظیم الشان جامع مسجد ایستادہ ہے وہ جگہ رہائشی علاقوں کے عین اوپر آخری سرے پر موجود تھا، یہ جامع مسجدیعنی خانقاہ معلی یوگو کی بنیاد میر شمس الدین عراقی نے رکھا تھا۔
ابتداء میں آنے والے باسی اپنے ساتھ مویشیاں ساتھ لاتے تھے وہ انکے گوشت ، دودھ اور لسی سے گزارہ کر لیتے تھے، آہستہ آہستہ ہموار زمینوں کو نرم کرکے کاشت کے قابل بناکر اناج حاصل کرنے لگے، آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کو چیڑ کر نہریں کھودی گئیں، اسطرح غلہ گندم ،گنگنی باجرہ، باقلہ، کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ خوبانی ، ناشپاتی، سیب، اور انگور وغیرہ کا رواج پایا۔ لوگ خوشحال ہو گئے، آبادی بڑھتی گئی، زندگیاں پر امن اور پر سکون گزرنے لگی، عشق ومحبت کی داستانیں لینے لگیں جن سے لوگوں میں گیتوں کا سلسلہ چل نکلا۔
یہاں کے باشندے آج کے اس مادہ پرست دور تک انتہائی سادہ، غیور، محنت کش، جفاکش، ایماندار، اور دلیری میں دوسری اقوام سے کسی طور کم نہ تھے، بلتستان کے لوگوں کی خوداری اور بہادری کو نہ صرف ظالم ڈوگروں نے تسلیم کیا بلکہ ماضی قریب میں کارگل جنگ میں اھل بلتستان کے سپوتوں نے ساری دنیا پر واضح کر دیا کہ شجاعت و دلیری میں یہاں کے باسی ساری دنیا کے جانبازوں پر سبقت لے گئے۔
{ تھنگوی ہرکوں نا بوراتی ہرکوں نا ہلتیپی ہرکوں فیونکھان کون
یو نی تھیوق نا ستوں ستوں ناتی شیوق نا رگو قربان ان}
{ اتی یوگو زندہ باد اتی یوگو زندہ باد}
It is located 75 km away from Baltistan's capital Skardu.
________________________________________
مختصر تاریخ یوگو
بقلم: محمد اسماعیل فضلی یوگوی
"یوگو" بلتستان کے مرکز سکردو سے 75 کلو میٹر شمال مشرق کی طرف واقع ہے، ضلع سکردو سے ہمایوں پل عبور کر کے ضلع گانگچھے کا آغاز ہوتا ہے، یہاں سے خپلو سیاچن روڈ پر چلتے جائیں تو کم و بیش 25کلو میٹر کے فاصلے پر "یوگو" پہنچ جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ: خطہ بلتستان قدیم زمانے سے چھوٹے چھوٹے مملکتوں پر منقسم تھیں، ان سلطنتوں کے حکمرانوں کو راجہ یا " رگیالفو" بادشاہ کہا جاتا تھا، ایسی ہی ایک طاقتور سلطنت خپلو تھا۔ جنکے حکمرانوں کو "یبگو" کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا، سلطنت خپلو کا پہلا گاؤں "یوگو" تھا۔ چونکہ یہ علاقے کا پہلا گاوں تھا، گاوں کو بلتی زبان میں "یل" کہتے ہیں اور پہلا کے لئے لفظ "گو" استعمال ہوتا ہے، اس مناسب سے اس گاوں کا نام یل گو پڑ گیا، بعد میں اس کی اصل تلفظ بگاڑ کر یوگو بن گیا۔
یوگو میں آغاز آبادی کب ہوئی؟ اس بارے میں وثوق سے کوئی بات کہنا ممکن نہیں، کیونکہ اس بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ نالہ یوگو میں گلیشیئر کے سرکتے پہاڑی تودے گرنے سے اور دریائے شیوق میں آنے والے خوفناک سیلابوں کے نتیجے میں یہ ہموار اور شاداب گاوں پیوند خاک ہوتے رہے۔ سینہ بسینہ چلے آنے والے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی آبادی کا آغاز دو دوستوں گھچے اور بروقپہ سے ہوئی۔
قدیم مذاہب: پورے بلتستان کی طرح یوگو میں بھی قدیم زرتشی مذہب کا رواج وسط ایشیاء کی جانب سے ہوا۔ یہ مذہب قبل از مسیح عرب سر زمینوں میں رائج تھا۔ اسکے باقیات در آثار کسی نہ کسی طریقے سے آج بھی موجود ہیں۔ مثلاً جشن نوروز، جشن مے فنگ، ستروب لا وغیرہ کی تہوار بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ قدیم مذاہب میں سے "بون مت" "بدھ مت" "لاما ازم" سر فہرست ہے۔
اشاعت اسلام: نور اسلام کی ضیاء پاشیوں سے قبل یہاں کی حالت عرب دور جہالت سے کم نہ تھی، توھم پرستی کا زور تھا، رگیالفو " بادشاہ" کو دیوتاؤں کا اوتار سمجھتے تھے، اور ظلم پر ظلم سہ لیتے ، لیکن دیوتاوں کے خوف سے زبان پر تالا لگائے رکھتے، حتی کہ راجہ کا نمائندہ نمبردار اور راجہ کے کارندے ﴿جنہیں "بوتادا" کے نام سے پکارا جاتا تھا ﴾ کے سامنے سرنگوں رہتے تھے،
آٹھویں صدی ھجری یعنی چودھویں صدی عیسوی تک یہ علاقہ نور اسلام سے محروم رہا۔ رگیالفو بوخا کے دور حکومت میں اسلام کی تبلیغ ان پہاڑوں میں پہنچ گئے۔
مبلغین اسلام کے بارے میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں، راقم کی تحقیقات کے مطابق جس مبلغ نے یہاں قدم رکھا میر شمس الدین عراقی تھا یہ تحقیق بھی سامنے آ تا ہے کہ انکا مسلک شافعی تھا، لیکن ہر فرقے کے ماننے والے ان مبلغین کا تعلق اپنے فرقے سے ظاہر کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، روایت ہے کہ یوگو کا ایک شخص جسکا غیر اسلامی نام واضح نہیں ہو سکا، خپلو راجہ کی تاج پوشی کی تقریب میں موجود تھا،
یہاں لامائیں اپنے کرتب دکھا رہے تھے، کہا جاتا ہے امیر کبیر سید علی ہمدانی وہاں تشریف لایا، مبلغ اسلام کا لاماؤوں کے ساتھ مناظرہ ہوا، برکات قرآن ، اور اسم اعظم لاما اپنا شعبدہ دکھانے میں عاجز رہے اور عوام کے جم غفیر سے بھاگ کھڑا ہوا۔
یہ موقع تھا کہ وارث انبیاء کو دعوت حق دینے کا چنانچہ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی مطابقت کو ایسے واضح اور مدلل انداز میں پیش کر دیا کہ دربار میں موجود لوگوں پر توھم پرستی کی دنیا بے حقیقت نظر آۓ ، چنانچہ یوگو کا وہ شخص بھی وہیں پر دائرہ اسلام میں داخل ہوکر اپنا نام فضل علی رکھ دیا۔ انہی کی تبلیغ سے سارا اہل یوگو حلقہ بگوش اسلام ہوۓ ، اس وقت کونسا مسلک اختیار کیا تھا اس کا کوئی خاص ثبوت نہ مل سکا، البتہ ایک وقت تھا کہ سالم آبادی نوربخشی مسلک کے پیرو رہے۔
انیسویں صدی میں ایک شخص غلام محمد پھڑا عبدوپا تلاش معاش کے سلسلے میں حسب روایات براستہ کشمیر عازم ہندوستان ہوۓ، انہوں نے شملہ میں ایک ٹھیکڈار عبدالوہاب کے ہاں ملازمت اختیار کی، سیٹھ عبدالوہاب کی تبلیغ سے اس نے اھلحدیث ﴿سلفی﴾ مسلک اختیار کیا، یہ بلتستان کا پہلا شخص تھا جو اھلحدیث ہوا، اسکے بعد اسی غلام محمد کی تبلیغ اور سیٹھ عبدالوہاب کی کاوشوں کا ثمرہ تھا کہ مولانا عبدالرحیم غواڑی نے اس مسلک کو اختیار کیا، بیسویں صدی عیسوی میں ایک بطل جلیل مفتی عبدالقادر ؒ دہلی سے فارغ التحصیل ہو کر آۓ ، یہ وہ دور تھا کہ نوبرا اور لداخ سے نکلنے والے دریاۓ شیوق میں ہلاکت خیز سیلاب آیا ، جس سے یوگو کی سرسبز و شاداب اور سحر نگیں گاؤں میں غرق آب ہوکر چٹیل میدان میں تبدیل ہو گئے، زرعی زمینوں کی تباہی، عزیزوں کی موت، رہائشی مکانات کی تباہی نے قیامت صغری بپا کر دیا ، زندگی کے رمق کو باقی رکھنے، بچوں کو پالنے اور زمینوں کو دوبارہ آباد کاری کیلۓ بھیگ مانگنے پر مجبور ہوئے، حتی کہ دور جدید کی اقتصادی انقلاب تک لوگ مختلف علاقوں سے بھیگ مانگ کر بچوں کو پالتے رہے۔
ایسے میں توھم پرست دنیا ایک عظیم معجزہ کے منتظر رہے ، مفتی عبدالقادر ؒ کے ذریعے دہلی کے سیٹھ عبدالوہاب ؒ نے دوبارہ آباد کاری کے لئے دل کھول کر مدد کی،لوگوں نے انہیں تائید غیبی جانا اور انہی کے مسلک "مسلک اھلحدیث" اختیار کر گئے، آج یہاں کی پوری آبادی الحمدللہ اھلحدیث ہیں، کہاوتی روایت ہے کہ کسمپرسی اور مفلوک الحالی کے اس دور میں آدھی رات کے قریب گاوں کے قریب سے غیر مرئی مخلوقات کی دلفگار آوازیں سنائی دینے لگے، نادیدہ مخلوقات سورة الرحمن کی تلاوت بآواز بلند کرتے ہوۓ اس پہاڑی پر چڑھ رہے تھے جس کے اوپر ایک وسیع و عریض چتیل میدان تھا ، راویوں کا کہنا ہے بعد میں اسی میدان تک سیٹھ حمید اللہ کے مالی تعاون سے پرپیچ اور پر خطر پہاڑوں کو کاٹ کر نہر نکالی گئی آج یوگو کے بیشتر معیشت کا دارومدار اسی واٹر چینل پر ہے، چند سال ہوے شیخ عبدالوہاب حنیف ؒ کی تعاون سے اس کی کافی حد تک توسیع کی گئی ہے ۔
معاشرتی ارتقاء: یوگو میں ارتقاء آبادی کے بارے میں کوئی مستند تاریخ دستیاب نہ ہو سکا، البتہ جرمن محقق "مس لیزا پولز" کے ساتھ راقم کی ملاقات خپلو قلعے میں ہوئی، وہ کہتی ہے کہ قدیم دور کی نشانیاں جو
اطراف و اکناف کے چٹانوں پر کندہ ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں انسانی آبادی کا آغاز ان سے ہوئی جو وسط ایشیاء سے خانہ بدوش قافلے اپنے مویشوں کو چراتے ہوۓ یہاں وارد ہوۓ اور یہاں کی زرخیزی سے متاثر ہو کر سکونت اختیار کی۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں آج یوگو کا عظیم الشان جامع مسجد ایستادہ ہے وہ جگہ رہائشی علاقوں کے عین اوپر آخری سرے پر موجود تھا، یہ جامع مسجدیعنی خانقاہ معلی یوگو کی بنیاد میر شمس الدین عراقی نے رکھا تھا۔
ابتداء میں آنے والے باسی اپنے ساتھ مویشیاں ساتھ لاتے تھے وہ انکے گوشت ، دودھ اور لسی سے گزارہ کر لیتے تھے، آہستہ آہستہ ہموار زمینوں کو نرم کرکے کاشت کے قابل بناکر اناج حاصل کرنے لگے، آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کو چیڑ کر نہریں کھودی گئیں، اسطرح غلہ گندم ،گنگنی باجرہ، باقلہ، کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ خوبانی ، ناشپاتی، سیب، اور انگور وغیرہ کا رواج پایا۔ لوگ خوشحال ہو گئے، آبادی بڑھتی گئی، زندگیاں پر امن اور پر سکون گزرنے لگی، عشق ومحبت کی داستانیں لینے لگیں جن سے لوگوں میں گیتوں کا سلسلہ چل نکلا۔
یہاں کے باشندے آج کے اس مادہ پرست دور تک انتہائی سادہ، غیور، محنت کش، جفاکش، ایماندار، اور دلیری میں دوسری اقوام سے کسی طور کم نہ تھے، بلتستان کے لوگوں کی خوداری اور بہادری کو نہ صرف ظالم ڈوگروں نے تسلیم کیا بلکہ ماضی قریب میں کارگل جنگ میں اھل بلتستان کے سپوتوں نے ساری دنیا پر واضح کر دیا کہ شجاعت و دلیری میں یہاں کے باسی ساری دنیا کے جانبازوں پر سبقت لے گئے۔
{ تھنگوی ہرکوں نا بوراتی ہرکوں نا ہلتیپی ہرکوں فیونکھان کون
یو نی تھیوق نا ستوں ستوں ناتی شیوق نا رگو قربان ان}
{ اتی یوگو زندہ باد اتی یوگو زندہ باد}
Wikipedia article: http://en.wikipedia.org/wiki/Yugo_Baltistan
Nearby cities:
Coordinates: 35°9'59"N 76°10'12"E
- Kharfaq ((YaSiN SaaMii)) 7.4 km
- Barah 9 km
- Kharkoo Valley 11 km
- Khaplu 13 km
- Balghar Valley 13 km
- Ghowari 15 km
- Thally Valley 24 km
- Tia 114 km
- Tingmosgang 118 km
- CHINESE OCCUPIED GALWAN VALLEY ( CHINESE CONTROLLED SINCE DEC,1962 ) 226 km
- Dindaq Khilas 1.3 km
- Hiyaqra 3.2 km
- Ranga Ginta broq 4.1 km
- Giyantha ((YaSiN SaMi UGovi)) 5.2 km
- barah velley 10 km
- Land for airport for UN peace keepers 17 km
- Tolti Chogho Thang 17 km
- kamango(Qamar chand) 17 km
- Sub Div TOLTI Kharmang 17 km
- Ghandus Kharmang 22 km